صلØ+ Ø+دیبیہ Ø+کمت ودانش Ú©ÛŒ ایک تاریخی دستاویز Û”
تØ+ریر : ڈاکٹر Ù…Ø+مد طاہر القادری
820 54539087 - صلØ+ Ø+دیبیہ Ø+کمت ودانش Ú©ÛŒ ایک تاریخی دستاویز تØ+ریر : ڈاکٹر Ù…Ø+مد طا

یہ ہجرت کا چھٹا سال تھا، مکہ سے Ù†Ú©Ù„Û’ ہوئے Ø+ضور نبی اکرمﷺ کوپانچ سال گزر Ú†Ú©Û’ تھے۔ ابتلاو آزمائش Ú©Û’ پانچ سال، غزوہ بدر سے غزوہ خندق تک اور پھر غزوہ بنو قریظہ تک عسکری مہمات کاایک صبر آزما دور اپنے اختتام Ú©Ùˆ پہنچ چکا تھا۔

Ø+ضورپاک ï·º Ù†Û’ دائمی اور Ø+قیقی مفادات Ú©Ùˆ ترجیØ+ دے کر امنِ عالم Ú©Û’ لیے وہ فضا تیار Ú©ÛŒ جسے اگر انسان اپنالے تو دنیا بھر میں امن وعافیت Ú©Û’ چراغ روشن ہوسکتے ہیں

مسلمانوں Ú©Ùˆ نہ Ø+ج Ú©ÛŒ اجازت تھی اور نہ وہ عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی کا فریضہ ادا کرسکتے تھے۔ دنیا بھر Ú©Û’ لوگ ہر سال Ø+ج اور عمرہ ادا کرتے، سنتِ ابراہیمی پرعمل کرتے لیکن مسلمانوں Ú©Ùˆ اللہ Ú©Û’ گھر کا طواف کرنے سے Ù…Ø+روم رکھا جا رہا تھا۔ بدر، اُØ+د اور اØ+زاب Ú©ÛŒ جنگوں میں مشرکینِ مکہ Ú©ÛŒ عسکری اورسیاسی قوت کازور ٹوٹ چکا تھا اور مسلماناب اس پوزیشن میں آچکے تھے کہ وہ Ø+ج اور عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی کا Ø+Ù‚ بزور بازو بھی Ø+اصل کرسکیں۔

چنانچہ یکم ذیعقد Û¶Ú¾ ؁ Ú©Ùˆ تاجدارِ مدینہ ï·º Ù†Û’ عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی کا قصد فرمایا۔ Ø+ضورپاکﷺ Ù†Û’ اپنے جاں نثار صØ+ابہؓ Ú©Ùˆ اپنے ایک خواب Ú©ÛŒ تفصیلات سے بھی آگاہ کیا کہ مسلمان پرامن طور پر مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر اگرچہ آپﷺ Ù†Û’ مدت کا تعین نہیں فرمایا تھا لیکن صØ+ابہ کرامؓ Ù†Û’ یہی سمجھا کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہوگا۔ Ø+جر اسود Ú©Ùˆ بوسہ دینے اور کعبہ کا طواف کرنے Ú©ÛŒ آرزو Ù†Û’ جذبوں Ú©Ùˆ مہمیز عطا Ú©ÛŒ اور وہ عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©ÛŒ تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔مدینہ منورہ پر بیرونی Ø+ملہ کا خطرہ Ú©Ù… ہوچلا تھا کیونکہ شہرِ نبیؐ Ú©Û’ قرب وجوار سے فتنہ پروریہودیوں Ú©ÛŒ جلاوطنی اور بنو قریظہ Ú©Û’ انجام Ù†Û’ یہودیوں Ú©Û’ دلوں میں مسلمانوں کارعب پیدا کردیا تھا اور وہ ذہنی طور پر مدینہ پر Ø+ملہ کرنے Ú©ÛŒ پوزیشن میں نہ رہے تھے اور نہ وہ فوری طور پر Ú©Ú¾Ù„Û’ میدان میں یا قلعہ بندہوکر ہی مسلمانوں سے پنجہ آزمائی کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ اس لئے اس طرف سے کسی Ø+ملے کاکوئی خطرہ نہ تھا اور عرب Ú©Û’ دیگر جنگجو قبائل بھی غزوۂ اØ+زاب میں طویل Ù…Ø+اصرے Ú©Û’ بعدناکام ہوکر لوٹ Ú†Ú©Û’ تھے، ان Ú©ÛŒ طرف سے بھی کسی فوری ردعمل Ú©Û’ اظہار کا امکان نہ تھا۔ اس لئے Ø+ضور پاکﷺ Ù†Û’ اس وقت Ú©Ùˆ مناسب سمجھا اور عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی کااعلان فرمادیا۔

جب Ø+ضورپاک ï·º اپنے جانثار صØ+ابہؓ Ú©Û’ ساتھ مدینہ منورہ سے عمرہ Ú©ÛŒ غرض سے روانہ ہوئے تو آپ ï·º Ú©Ùˆ شدت سے اØ+ساس تھا کہ قریش ان Ú©ÛŒ راہ Ú©ÛŒ دیوار بنیں Ú¯Û’ اور مسلمانوں سے الجھنے Ú©ÛŒ کوشش کریں Ú¯Û’ØŒ Ø+الانکہ Ø+ج وعمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی عرب Ú©Û’ دستور Ú©Û’ مطابق مسلمانوں کا قانونی Ø+Ù‚ تھا لیکن قریش Ú©ÛŒ آنکھوں پر تعصب Ú©ÛŒ پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ مسلمانوں Ú©Ùˆ عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©ÛŒ اجازت دے کر اپنی جھوٹی اناکی دیوار کومسمار نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اس وقت قریش سے الجھنا Ø+کمت ودانش Ú©Û’ خلاف تھا۔ آپﷺ Ù†Û’ Ø+دیبیہ Ú©Û’ مقام پر پڑائو ڈالا اور خراش بن امیہ الخزاعی Ú©Ùˆ اپنا سفیر بنا کر قریش Ú©ÛŒ جانب بھیجا کہ ہم جنگ کرنے نہیں بلکہ عمرہ Ú©ÛŒ نیت سے آئے ہیں اور عمرہ اداکرنے Ú©Û’ بعد واپس مدینہ لوٹ جائیں Ú¯Û’ لیکن مشرکینِ مکہ Ù†Û’ ان پر Ø+ملہ کردیا اور اس بات Ú©ÛŒ بھی پرواہ نہ Ú©ÛŒ کہ خراش بن امیہ الخزاعی فریقِ مخالف Ú©Û’ سفیر ہیں، اور سفیر Ú©Ùˆ قتل کرنا زمانہ جاہلیت میں بھی معیوب سمجھا جاتا تھا، اس موقع پر Ú©Ú†Ú¾ لوگ آڑے آئے اور سفیرِ پیغمبرؐ Ú©Ùˆ Ø+ملہ آوروں سے بچالیا، آپؓ واپس آئے اور سارے Ø+الات سے Ø+ضورپاک ï·º Ú©Ùˆ آگاہ کیا۔

قریش میںبھی چند ایک لوگ ایسے ضرور تھے جو اپنی تمام تراسلام دشمنی Ú©Û’ باوجود یہ خیال کرتے تھے کہ مسلمانوں Ú©Ùˆ عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی سے نہ روکا جائے، لیکن قریش Ú©Û’ نوجوان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں Ú©Ùˆ نیست ونابود کردینا چاہتے تھے۔ دونوں اطراف سے سفارتی Ù…Ø+اذ پر سرگرمیاں جاری تھیں۔ بدیل بن ورقا، عروہ بن مسعود ثقفی، مکرزبن Ø+فص اور Ø+لیس بن علقمہ یکے بعد دیگرے قریش Ú©Û’ سفیر بن کر آئے۔ ان سفراء Ù†Û’ قریش Ú©Ùˆ مسلمانوں Ú©Û’ بارے میں نرم گوشہ رکھنے Ú©ÛŒ تجویز دی مگر قریش Ù†Û’ ہٹ دھرمی Ú©ÛŒ وجہ سے ان سفراء Ú©ÛŒ باتوں Ú©Ùˆ ماننے سے انکار کر دیا۔گومگو اور تذبذب Ú©ÛŒ اس فضا میں Ø+ضور نبی اکرم ï·º Ù†Û’ Ø+ضرت عمر فاروق Ø“ Ú©Ùˆ قریش Ú©Û’ پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجنا چاہا لیکن انہوں Ù†Û’ معذرت کرلی کہ یارسولؐ اللہ! مجھ Ú©Ùˆ قریش سے اپنی جان کا خوف ہے کیونکہ وہ میری ان سے عداوت Ú©Û’ Ø+ال سے واقف ہیں کہ میں جس قدر ان پر سختی کرتا ہوں اور میری قوم بنی عدی بن کعب میں سے بھی کوئی مکہ میں نہیں ہے جو مجھ Ú©Ùˆ بچالے گا۔ میں آپﷺ Ú©Ùˆ ایک ایسا شخص بتاتا ہوں جو قریش Ú©Û’ نزدیک مجھ سے زیادہ بہتر اور عزیز تر ہے یعنی عثمانؓ بن عفان‘‘۔

Ø+ضورپاکؐ Ù†Û’ Ø+ضرت عمر Ø“ کا عذر قبول فرماتے ہوئے Ø+ضرت عثمان غنی Ø“ Ú©Ùˆ نامزد فرمایا کیونکہ قریش میں ان کا قبیلہ زیادہ قوی تھا۔ Ø+ضرت عثمان غنی Ø“ سفیرِ مصطفی ؐبن کر عازمِ مکہ ہوئے۔ راستے میں کفار Ú©ÛŒ ایک گشتی پارٹی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ وہ Ø+ضرت عثمان غنی Ø“ پر Ø+ملہ کرنے ہی والے تھے کہ آپ Ú©Û’ ایک چچا زاد Ù†Û’ آپؓ Ú©Ùˆ دیکھ لیا اور Ø+ضرت عثمانِ غنی Ú©Ùˆ اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کردیا۔ اس پر Ø+ملہ آوروں Ù†Û’ اپنا ہاتھ روک لیا۔ Ø+ضرت عثمان Ø“ Ù†Û’ قریش Ú©Û’ زعماء تک Ø+ضورپاک ï·º کا پیغام پہنچایا کہ تم دیگر مشرکین اور مسلمانوں Ú©Û’ مقابلے میں غیر جانبدار ہو جائو۔ اگر دیگر لوگ غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہوجائے گا اور اگر Ø+ضور ï·º کامیاب ہوگئے تو تمہیں اسلام قبول کرنے کا پورا اختیار ہوگا۔ چاہو تو میدانِ جنگ میں بھی اتر سکتے ہو، بہر Ø+ال ہم اسلام Ú©ÛŒ دعوت دیتے ہیں۔ آپؓ Ù†Û’ مزید فرمایا کہ Ø+ضور ï·º جنگ Ú©ÛŒ نیت سے نہیں بلکہ عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ روایات میں ہے کہ Ø+ضرت عثمان غنی Ø“ وادی بلدØ+ سے اپنے چچا زاد Ú©Û’ ساتھ مکہ پہنچے اور ان زعماء تک بھی پیغام پہنچایا جو وادی بلدØ+ میں نہیں تھے۔ ابوسفیان اور صفوان Ù†Û’ امن اور صلØ+ Ú©ÛŒ اس پیش Ú©Ø´ Ú©Ùˆ بھی ٹھکرادیا۔Ø+ضرت عمر فاروق Ø“ Ù†Û’ جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ بالکل درست تھا، Ø+ضرت عثمان غنی Ø“ بنو امیہ Ú©ÛŒ پناہ میں تھے، اس لئے مشرکینِ مکہ Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ راہ میں مزاØ+Ù… ہونے Ú©ÛŒ جرأت نہ ہوئی، نہ صرف یہ کہ انہوں Ù†Û’ آپؓؓ سے کوئی تعرض نہ کیا بلکہ آپؓ Ú©Ùˆ طواف کعبہ کرنے Ú©ÛŒ پیشکش بھی کردی کہ

’’اگر آپؓ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں‘‘۔

لیکن عثمان Ø“ Ú©ÛŒ غیرتِ ایمانی Ù†Û’ گوارانہ کیا کہ اپنے آقا ï·º Ú©Û’ بغیر طوافِ کعبہ Ú©ÛŒ سعادت Ø+اصل کریں، آپ ؓنے فرمایا:

’’خد اکی قسم! میں اسوقت تک طواف نہیں کروں گا، جب تک ہمارے آقاﷺ طواف نہ کر لیں‘‘۔

جنگی جنون میں مبتلا قریش جنہوں Ù†Û’ امن اور صلØ+ Ú©ÛŒ ہر پیش Ú©Ø´ Ú©Ùˆ ٹھکرادیا تھا، لیکن کسی قسم Ú©ÛŒ جنگی تیاریوں Ú©Û’ بغیر بھی مسلمانوں Ú©Û’ جرأت، ہمت اور Ø+وصلہ Ù†Û’ انہیں بہت Ú©Ú†Ú¾ سوچنے پر مجبور کردیا۔ انہیں مسلمانوں Ú©ÛŒ قوتِ ایمانی کا اندازہ ہوا، انہیں بدر، اُØ+د اور خندق Ú©Û’ واقعات یاد آنے Ù„Ú¯Û’ کہ کس طرØ+ مسلمان نامساعد Ø+الات میں بھی ثابت قدم رہے اور غزوہ اُØ+د میں عارضی شکست Ú©Û’ باوجود سنبھل گئے Ø+تیٰ کہ ہمارے تعاقب میں Ù†Ú©Ù„ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوئے، سازشی یہودیوں کا انجام بھی ان Ú©Û’ سامنے تھا۔ خوف Ú©ÛŒ ایک لہر ان Ú©Û’ لہو میں گردش کرنے Ù„Ú¯ÛŒ تو چہروں Ú©ÛŒ برف پگھلی، انہیں خوف تھا کہ اگر اب جنگ ہوئی اور ہمیںشکست کا سامنا کرنا پڑا تو ہم کہیں Ú©Û’ نہ رہیں Ú¯Û’ اور ہماری رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل کائے گی۔ لہٰذا قریش Ú©Û’ عمائدین Ù†Û’ سہیل بن عمرو Ú©ÛŒ سرکردگی میں ایک وفد تشکیل دیا۔ رسی جل جاتی ہے لیکن بل نہیں جاتا Ú©Û’ مصداق، وفد Ú©Û’ سربراہ Ú©Ùˆ ہدایت Ú©ÛŒ گئی کہ

’’تو جاکر Ù…Ø+مدﷺ سے اس بات پر صلØ+ کر کہ اس سال وہ واپس Ú†Ù„Û’ جائیں ورنہ تمام عرب یہ کہیں Ú¯Û’ کہ Ù…Ø+مدﷺ Ù†Û’ زبردستی عمرہ کرلیا اور قریش Ú©Ú†Ú¾ نہ کرسکے اور اس میں ہماری بڑی بدنامی ہوگی‘‘۔

سہیل بن عمرو Ú©Ùˆ عرب میں فصاØ+ت وبلاغت کا بادشاہ متصور کیا جاتاتھا، اس Ú©Û’ ساتھ ساتھ وہ ایک کامیاب سفارت کار بھی تھا۔ دوراندیش اور انتہائی ہوشیار انسان، قریش Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ انہی صلاØ+یتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنے نمائندے Ú©Û’ طور پر Ø+ضور ï·º Ú©ÛŒ بارگاہ میں بھیجا۔

مذاکرات کا آغاز

ادھر مسلمان بے سروسامانی Ú©Û’ عالم میں قریش سے دو دو ہاتھ کرنے Ú©Û’ لیے ذہنی اورعملی طور پر تیار تھے، ادھر قریش Ú©ÛŒ طرف سے ان کا ایلچی مذاکرات Ú©Û’ لیے آرہا تھا۔ بیعتِ رضوان اور اعلانِ جنگ Ú©Û’ بعد قریش کا صلØ+ Ú©Û’ لیے وفد بھیجنا دراصل مسلمانوں Ú©ÛŒ ایک عظیم فتØ+ تھی۔ دشمن نفسیاتی جنگ ہارچکا تھا۔مذاکرات خوشگوار فضا میں شروع ہوئے۔ مسلمان تو پہلے ہی جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ تو عمرہ Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©Û’ لیے اتنی طویل مسافت Ø·Û’ کر Ú©Û’ مکہ Ú©Û’ قرب وجوار میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ وفد Ú©Û’ سربراہ Ù†Û’ قریش Ú©ÛŒ زیادیتوں Ú©ÛŒ بھی معافی طلب کی، خیر سگالی Ú©Û’ طور پرمسلمانوں Ù†Û’ بھی شب خون مارنے والے جن Ø+ملہ آوروں Ú©Ùˆ گرفتار کیا تھا، انہیں رہا کردیا۔ اس طرØ+ مذاکرات Ú©Û’ پہلے مرØ+Ù„Û’ پر فریقین Ù†Û’ اپنے اپنے نقطہ نظر سے کامیابی Ø+اصل کی۔ اب مذاکرات Ú©ÛŒ کامیابی یقینی نظر آرہی تھی۔

فریقین Ú©Û’ درمیان صلØ+ Ú©ÛŒ شرائط Ú©Ùˆ Ø+تمی Ø´Ú©Ù„ دینے کا مرØ+لہ کوئی آسان مرØ+لہ نہ تھا۔ قدرتی بات ہے کہ ہر فریق اپنے مفاد Ú©Ùˆ پیش نظر رکھتا ہے لیکن چشمِ فلک Ù†Û’ دیکھا کہ وقتی اور ہنگامی مفادات پر Ø+ضورپاک ï·º Ù†Û’ دائمی اور Ø+قیقی مفادات Ú©Ùˆ ترجیØ+ دے کر امنِ عالم Ú©Û’ لیے وہ فضا تیار Ú©ÛŒ جسے اگر انسان مفادات Ú©ÛŒ آلودگی سے بچا Ù„Û’ تو آج بھی اس Ú©Û’ Ø+ال Ú©Û’ اندھیروں اور مستقبل Ú©Û’ دھندلکوں میں امن وعافیت Ú©Û’ چراغ روشن ہوسکتے ہیں اور وہ شاہراہِ امن پر ابنِ آدم Ø‘Ú©ÛŒ فلاØ+ وبہود Ú©Û’ لیے کارہائے نمایاں سرنجام دے سکتا ہے۔

مذاکرات Ú©Û’ دوران فریقین میں صلØ+ Ú©ÛŒ شرائط Ú©Û’ بارے میں کافی بØ+Ø« وتمØ+یص ہوئی، ایسے نازک مقامات بھی آئے جب وفد Ú©Û’ اراکین غصے میں آجاتے ØŒ طرØ+ طرØ+ Ú©ÛŒ آوازیں بلند کرتے اور ناراضی کا اظہا کرتے۔ اس پر آپ ï·º Ú©Û’ Ù…Ø+افظ ان Ú©ÛŒ طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے کہ وہ Ø+دِ ادب سے بڑھنے Ú©ÛŒ جسارت نہ کریں۔ بہر Ø+ال فریقین Ú©Û’ درمیان بعض امو رپر اتفاق رائے ہوگیا کیونکہ Ø+ضور ï·º جنگ Ú©Û’ بغیر مکہ میں داخلہ Ú©Û’ خواہشمند تھے، اس لئے آپ ï·ºÙ†Û’ مشرکین Ú©ÛŒ بعض ایسی شرائط بھی قبول کر لیں جو بظاہر مسلمانوں Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں نہیں تھیں یاجن Ú©Û’ تسلیم کئے جانے سے مسلمانوں Ú©ÛŒ کمزوری کا اظہار ہوتاتھا۔ یہ بات Ø+ضور ï·º Ú©Û’ جاں نثاروں Ú©Ùˆ کسی Ø+دتک ناگوار بھی گزری لیکن بارگاہِ نبویؐ میں کسی Ú©Ùˆ دم مارنے Ú©ÛŒ مجال نہ تھی، سب اØ+تراماً خاموش Ú©Ú¾Ú‘Û’ رہے۔اس معاہدے Ú©ÛŒ کتابت Ú©Û’ آغاز سے ہی فریقین میں اختلاف ظاہر ہونے لگا مگر آپﷺ ہر مرØ+لہ پر کمال وسعتِ ظرف اور صبرو تØ+مل کا اظہار فرماتے رہے۔

سہیل بن عمرو Ù†Û’ بسم اللہ الرØ+من الرØ+یم سے صلØ+ Ú©ÛŒ دستاویز کا آغاز کرنے پر اعتراض کیا کہ

میں رØ+من Ú©Ùˆ نہیں جانتا، اس Ú©ÛŒ جگہ باسمک اللہم لکھیں۔

مسلمان تØ+ریر کاآغاز بسم اللہ سے ہی کرنا چاہتے تھے۔ بہرØ+ال Ø+ضورپاک ï·º Ù†Û’ سہیل بن عمرو Ú©ÛŒ یہ تجویز منظور کر Ù„ÛŒ کہ Ø+رفِ آغاز میں باسمک اللھم Ú©Û’ الفاظ ہی Ù„Ú©Ú¾Û’ جائیں۔ Ø+ضرت علیؓ معاہدہ Ú©ÛŒ دستاویز Ú©Ùˆ تØ+ریر میں لارہے تھے۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا: Ù„Ú©Ú¾ÙˆÛ”

اس معاہدہ پر Ù…Ø+مد رسول اللہ Ù†Û’ سہیل بن عمر سے صلØ+ کی۔

سہیل اس پر بھی معترض ہوا کہ ،

’’میں آپ Ú©Ùˆ اللہ کا رسول تسلیم کر لوں تو پھرجھگڑا کس بات کا ہے، ہم آپ ï·ºÚ©Ùˆ مکہ میں داخل ہونے سے کیوں روکتے؟ اس لئے آپ ï·º اپنے اور اپنے والد Ú©Û’ نام سے معاہدہ لکھوائیں۔ اس پر سرداران اوس اور خزرج اØ+تجاجاًاٹھ کر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوگئے۔ انہوں Ù†Û’ کہا: یہ نہیں ہوسکتا، اب ہمارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ Ø+ضورپاکﷺنے اس نازک موقع پرکمال ضبط وتØ+مل کا مظاہرہ کیا۔ فضا Ú©Ùˆ مکدر ہونے سے بچالیا اور Ø+ضرت علیؓسے فرمایا:رسول اللہ Ú©Û’ الفاظ قلم زد کردو۔ لیکن ان Ú©ÛŒ غیرت ایمانی Ù†Û’ گوارانہ کیا کہ وہ اپنے آقاﷺ Ú©Û’ اسم گرامی پرقلم پھیریں۔ انہوں Ù†Û’ عرض کیا:

’’اللہ کی قسم! میں اِن الفاظ کو کبھی بھی قلم زد نہیں کروں گا‘‘۔

اس جواب پر Ø+ضورپاک ï·º Ù†Û’ خود یہ الفاظ کاٹ دئیے۔ سہیل کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیاگیا اور یوں Ø+دیبیہ Ú©Û’ صلØ+ نامہ Ú©ÛŒ تØ+ریر درج ذیل شرائط Ú©Û’ ساتھ مکمل ہوئی اور جس پر فریقین Ú©Û’ دستخط ہوئے۔

Ø+دیبیہ Ú©ÛŒ تاریخی دستاویز

با سمک اللہم، یہ وہ امر ہے جس پر Ù…Ø+مد بن عبداللہ Ù†Û’ سہیل بن عمرو سے صلØ+ کی، ان دونوں Ù†Û’ اس بات پر صلØ+ Ú©ÛŒ کہ دس سال تک جنگ نہیں Ú©ÛŒ جائے گی، اس عرصے Ú©Û’ دوران امن وامان سے رہیں Ú¯Û’ اور ایک دوسرے Ú©Ùˆ گزند پہنچانے سے باز رہیں Ú¯Û’ØŒ جوشخص ولی Ú©ÛŒ اجازت Ú©Û’ بغیر Ù…Ø+مد (ï·º ) Ú©Û’ پاس آئے گا، وہ اُسے لوٹانے Ú©Û’ پابند ہوں Ú¯Û’ اور جو اصØ+ابِ Ù…Ø+مد (ï·º) سے قریش Ú©Û’ پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں Ú¯Û’Û” نہ خفیہ چوری کریں Ú¯Û’ØŒ نہ خیانت کریں Ú¯Û’ اور نہ عداوت کا اظہار کریں Ú¯Û’Û” جو Ù…Ø+مد ï·º Ú©Û’ ساتھ معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے، ان Ú©Û’ ساتھ شامل ہوجائے اور جو قریش Ú©Û’ ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، ان Ú©Û’ ساتھ شامل ہوجائے۔ اس سال آپؐ (Ù…Ø+مدﷺ) اپنے اصØ+ابؓ Ú©Û’ ساتھ واپس Ú†Ù„Û’ جائیں Ú¯Û’ اور اگلے سال ہمارے پاس آئیں Ú¯Û’ اور صرف تین دن قیام کر سکیں Ú¯Û’ اور تلواروں Ú©Ùˆ نیام میں رکھیں Ú¯Û’Û”

Ø+دیبیہ سے واپسی

قربانی کا فریضہ اد اکرنے Ú©Û’ بعد 10دن سے زائد اور ایک روایت Ú©Û’ مطابق بیس دن Ø+دیبیہ گزارنے Ú©Û’ بعد واپسی Ú©ÛŒ تیاریاں شروع ہوگئیں اور وہی راستہ اختیار کیاگیا جس راستے سے گزر کر یہ قافلہ اہلِ وفاØ+دیبیہ میں اتراتھا۔ صØ+ابہؓ Ù†Û’ Ø+ضور ï·º سے اپنے اونٹ ذبØ+ کرنے Ú©ÛŒ اجازت طلب Ú©ÛŒ جوا نہیں دے دی گئی۔سامانِ رسدختم ہوگیا۔ نوبت فاقوں تک آگئی، اگر مسلمان چاہتے تو آس پاس Ú©ÛŒ آبادیوں پر دھاوا بول دیتے اور رشتہ جاں برقرار رکھنے Ú©Û’ لیے اناج Ø+اصل کرلیتے، عرب Ú©Û’ عام رواج اور دستور Ú©Û’ مطابق یہ فعل اتنا بھی معیوب نہ ہوتا، آج Ú©Û’ نام نہاد مہذب دور میں بھی ان باتوں Ú©ÛŒ پروا نہیںکی جاتی اور فاتØ+ین مفتوØ+ین Ú©ÛŒ ہرچیز Ú©Ùˆ اپنے تصرف میں لانا اپنا قانونی Ø+Ù‚ سمجھتے ہیں، بستیوں Ú©Ùˆ تاراج کرتے ہیں، املاک Ú©Ùˆ نذرِ آتش کرتے ہیں، لیکن Ø+ضور ï·º پوری دنیا کواخلاق سکھانے آئے تھے، ان Ú©Û’ سچے پیروکار بھلا ان غیر اخلاقی اور غیر انسان کاموں میں کیسے شریک ہوتے۔ Ø+ضورپاک ï·º Ú©Û’ ہمسفروں Ù†Û’ کسی Ú©Û’ مال Ú©ÛŒ طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اسلام پرقتل وغار تگری اور لوٹ مار کاالزام لگانے والے ذرا Ø+دیبیہ سے مدینہ مسلمانوں Ú©ÛŒ واپسی Ú©Û’ اØ+وال پر بھی نظر ڈالیں کہ اپنے عمل سے صØ+ابہؓ Ù†Û’ کس طرØ+ عظمتِ کردار Ú©ÛŒ ہربلندی Ú©Ùˆ چھولیا Û”

Ø+ضورپاکﷺ Ù†Û’ واقعات Ú©ÛŒ تمام کڑیوں پر نظر رکھی اور بروقت فیصلے کرکے فروغ اسلام Ú©Û’ لیے راہ ہموار کی۔ وقتی اور ہنگامی نہیں پائیدار اور طویل المیعاد فوائد Ø+ضورﷺ Ú©Û’ پیش نظر تھے۔ عارضی فوائد Ø+اصل کرنے Ú©Û’ لیے وسیع تر قومی مفاد Ú©Ùˆ نظر انداز نہیں کیا گیا۔ آپﷺ Ù†Û’ صلØ+ Ú©ÛŒ ایسی شرائط بھی قبول کرلیں جو بظاہر مسلمانوں Ú©ÛŒ کمزوری پر دلالت کرتی تھیں اور صØ+ابہؓ Ù†Û’ جنہیں اپنی توہین پر Ù…Ø+مول کیا تھا لیکن نگاہ نبوت مستقبل Ú©Û’ دریچوں میں اسلامی سلطنت Ú©Û’ پھیلائو Ú©Ùˆ دیکھ رہی تھی۔